روح اور بدن کے درمیان کس قسم کا رابطہ ہے؟

نفس اور بدن کے درمیان رابطہ ان اہم مسائل میں سے ہے ، جو فلسفہ کے مشکل ترین مباحث شمار ھوتے ہیں- واضح طور پر یہ کہ مندرجہ ذیل دو مطالب تمام دانشوروں کے نزدیک بدیہی اور اظہرمن الشمس ہیں:
۱-انسان کے وجود میں دوقسم کی خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو آپس میں کافی تفاوت رکھتی ہیں- پہلی قسم کی خصوصیت نفسانی خصوصیت ہے، جیسے: آگاہی، ارادہ، ذاتی ہویت، خوشحالی، غم، درد کا احساس وغیرہ، کہ ان کے ساتھ کوئی بھی طبیعیاتی[جسمانی] معیار تطبیق نہیں کرتا ہے اور اس معیار کے ذریعہ ان کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہے- دوسری قسم، طبیعیاتی اور جسمانی خصوصیات ہیں-
۲-نفسانی اور طبیعیاتی خصوصیات، باہم تفاوت رکھنے کے باوجود آپس میں عمیق اور پیچیدہ رابطہ رکھتی ہیں –
لیکن ان کے درمیان اس رابطہ کو کس فلسفہ کے ذریعہ بیان کیا جائے؟ اس پر فلاسفہ اور حکماء کے درمیان اتفاق نظر نہیں پایا جاتا ہے-
اس سلسلہ میں ایک محقق لکھتا ہے:” نفس اور بدن کا مسئلہ قدیم الایام سے آج تک فلسفہ کے اصلی مباحث میں شمار ھوتا رہا ہے- اگر چہ اس کے بارے میں جدید بیان ڈیکارٹ کے زمانہ سے شروع ھوا ہے- بعض فلاسفہ اس کے قائل ہیں کہ مختلف مسائل، من جملہ: آگاہی، ذاتی ھویت، جسمانی موت کے بعد فرد کا بقا، نفسیاتی بیماریاں، ارادہ کی آزادی، دوسرے حیوانوں کے ساتھ انسان کے نفسیاتی اختلافات وغیرہ، اس پر مبنی ہیں کہ ہم نفس اور بدن کے درمیان رابطہ کے بارے میں کیا جواب دیں؟ ان مسائل کو اس حقیقت نے پیش کیا ہے کہ نفسیاتی خصوصیات طبیعیاتی خصوصیات سے کافی متفاوت دکھائی دیتی ہیں اور اس کے باوجود یہ دو خصوصیات آپس میں کافی عمیق اور پیچیدہ رابطہ بھی رکھتی ہیں- ہاتھ میں سوئی کا گھسنا، درد کا سبب بن جاتا ہے، لیکن یہ طبیعیاتی تبدیلی کیسے درد کا احساس پیدا کرتی ہے اور درد کیسے درد کے عامل سے بدن کو دور کرنے کا سبب بن جاتا ہے؟ اور کیا آگاہی کو مادی ذرات کی کیفیت،یعنی، ایٹموں، مالی کیولوں، خلیوں اور پیچیدہ حرکتوں کی طرف لوٹا دیا جاسکتا ہے؟ یہ کام آسان نہیں ہے اور اب تک فلاسفہ کی کافی کوششوں کے باوجود اس سلسلہ میں کوئی قابل توجہ نتیجہ نہیں نکلا ہے- ان دو خصوصیات کے درمیان فاصلہ اس قدر زیادہ ہے کہ ان کے آپسی رابطہ کا معما ابھی تک حل نہیں ھوسکا ہے اور تمام علمی و فلسفی ترقیاں اس قسم کے سوالات کا خاطر خواہ جواب نہیں دے سکی ہیں-[1]  یہ کہ مذکورہ مثال کے مطابق اعصاب کے سلسلہ میں کونسے طریقہ کار رونما ھوتے ہیں؟ یہ علم اعصاب کے ماہروں کا کام ہے، لیکن یہ کہ کیا نفسیاتی یا ذہنی حالتیں ، صرف اعصابی عمل ہیں یا نہیں،؟ یہ ایک فلسفیانہ تحقیق کا کام ہے-[2]
بہر حال، اس مطلب کے واضح ھونے کے لئے پہلے فلاسفہ کے نظریات اور آراء کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے-
نفس اور بدن کے درمیان رابطہ کے بارے میں فلاسفہ کے نظریات:
نفس اور بدن کے درمیان رابطہ کے بارے میں فلاسفہ کے نظریات پر تحقیق اور غور کرنے کے بعد ہم اس باب سے متعلق ان نظریات کو ” وحدت گرائی” اور ” کثرت گرائی” نام کے دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، کیونکہ بعض فلاسفہ وجود نفس کا انکار کرتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان کے وجود میں بدن اور اس کے مادی و عنصری اجزاء کے علاوہ کوئی اور چیزنہیں ہے، اور آج کل یہ نظریہ” یکسان نظریہ” کے نام سے مشہور ہے- بعض فلاسفہ، نفس اور بدن کے باب میں ” دوگانہ نظریہ” کا دفاع کرتے ہیں- اس کے علاوہ کہا جاسکتا ہے کہ نفس اور بدن کے درمیان رابطہ کے بارے میں بہترین نظریہ حکمت عالیہ کا پیش کیا گیا نظریہ ہے، جس میں نفس اور بدن کو ” دوگانہ یگانہ” کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے- بہر حال، چونکہ نفس اور بدن کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں قدیم فلاسفہ کے افکار اور نظریات کی بنیاد کو، حالیہ صدیوں کے فلاسفہ کے نظریات میں پایا جاسکتا ہے اس لئے ہم جدید افکار کے پیش نظر اس کی بحث شروع کرتے ہیں، اور خلاصہ کی رعایت کرتے ھوئےذیل میں صرف دو مشہور نظریات پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
نظریہ دوگانہ:
قدیم زمانہ سے آج تک ، بہت سے فلاسفہ نے انسان کی حقیقت کی ایک قسم کی دوگانگی کی صورت میں تفسیر کی ہے- یہ فلاسفہ انسان کو ایک ایسی مخلوق جانتے تھے، جو، جو مادی ذرات کے درمیان طبیعی قوانین سے تشکیل پائی ایک طبیعی دنیا، میں زندگی گزارتا ہے، لیکن وہ خود ایک ایسا جوہر ہے جو مذکورہ امور میں سے نہیں ہے- اس جوہر کو ” نفس” یا ” روح” کہا جاتا ہے- مثال کے طور پر افلاطون کہتا تھا: ہم میں سے ہر ایک انسان ایک بسیط، الہی اور ناقابل تغییر روح اور ایک مرکب اور فنا ھونے والا بدن رکھتا ہے، یعنی، بدن صرف مادی دنیا میں ہمارے وجود کے لئے ایک وسیلہ ہے، جو روح کے ابدی سفر کا ایک جلدی گزرنے والا مرحلہ ہے، بہ الفاظ دیگر، افلاطون نہیں کہتا تھا کہ ہم روح رکھنے والی ایک مخلوق ہیں، بلکہ یہ کہتا تھا کہ ہم روح کے ساتھ ایک ہیں، یعنی ہر انسان صرف ایک روح ہے، جو انسان کے وجود کو تشکیل دیتا ہے-[3]
بہر حال، ” ڈیکارٹ” کا جدید فلسفہ، نظریہ دوگانہ شمار ھوتا ہے- وہ اپنے طریقہ کار کے مطابق کہتا تھا کہ: ایک لحاظ سے میں، اپنے متمائز و واضح تصور کو ایک قابل غور اور محدود جانتا ھوں اور بہ الفاظ دیگر، جسم سے جدا ایک تصور جانتا ھوں، اور اسے صرف ایک لا محدود اور نا قابل فکر چیز جانتا ھوں جو یقین کی بنیاد پر ہے کہ در حقیقت میں اپنے بدن سے جدا ھوں  اور اس کے بغیر ایک موجود ھو سکتا ھوں-[4]
ڈیکارٹ کے کہنے کے مطاق، مادی جوہر کا ذاتی وجود صاحب ابعاد مکان کے معنی میں ہے، یعنی فضا میں سے ایک حجم کو پر کرنا، جبکہ جوہر نفسانی خصوصیات میں سے ” فکر کرنا” یا ” آگاہ ھونا ” ہے – ” فکر کرنے” سے اس کا مراد نفسانی حالتوں اور فعالیتوں کے بارے میں ایک مکمل سلسلہ ہے، جیسے: اس کے خاص معنی میں ، دیکھنا، محسوس کرنا، ادراک کرنا، حکم دینا اور شک کرنا ہے- ان دو جوہروں کی خصوصیات کے درمیان فاصلہ ان میں سے کسی ایک پر اثر نہیں ڈال سکتا ہے-[5]
نفس کے دوگانہ نظریہ پر تحقیقی تنقید:
اس نظریہ کے مشکلات مندرجہ ذیل دو بنیادی مطالب شمار ھوتے ہیں:
۱-جس طرح نفس اور بدن کی دوگانگی بدیہی ہے، انسان کی وحدت بھی بدیہی ہے- دوگانگی کا نظریہ، ان دو مطالب کے آپسی منافات اور ناساز گاری کو دور کرنے کے سلسلہ میں کوئی مطلب بیان نہیں کرتا ہے-
۲-بدن طبیعی ہے اور نفس غیر طبیعی ہے، دوگانگی کا نظریہ، بدن اور روح کے درمیان رابطہ اور تاثیر کے بارے میں کچھ بیان نہیں کرتا ہے-
حکمت متعالیہ کے نظریہ کے مطابق” بدن” نفس کا نچلا مرتبہ ہے-
حکمت متعالیہ کے مطابق، نفس اور بدن، دو ھونے کے باوجود آپس میں وحدت رکھتے ہیں، پس حقیقت میں نفس کے بارے میں حکمت متعالیہ کا نظریہ دوگانگی ہے، لیکن یہ دو گانگی ” ڈیکارٹ” کی جیسی دوگانگی نہیں ہے کہ وہ نفس اور بدن کو دو بالکل الگ اور متفاوت اور ایک دوسرے سے جدا چیزیں جانتا ہے- بلکہ نفس اور بدن آپس میں تمایز اور وحدت رکھتے ہیں، کیونکہ حکمت متعالیہ کے مطابق نفس، اپنی جامعیت اور وجودی طاقت کی وجہ سے وحدت کا حامل ہے جو کثرت کے منافی نہیں ہے – یہ ایک ایسی مخلوق ہے جو وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت رکھتی ہے – نتیجہ کے طور پر اس نظریہ کے مطابق بدن اور نفس کے درمیان گہرا رابطہ { یعنی وہی وحدت کا رابطہ اور بدن کا نفس کے مراتب کا ایک مرتبہ ھونا}ہے –
استاد علامہ حسن زادہ عاملی اس نظریہ کی وضاحت کرتے ھوئے فرماتے ہیں:” بدن، نفس کا نچلا مرتبہ ہے اور نفس کل بدن ہے، اور بدن روح کا جسد و جسم ہے جو اس عالم میں اس کے کمالات اور طاقت کو ظاہر کرنے والا ہے”-[6]
اس نظریہ کے ذریعہ حکمت متعالیہ، مغربی فلسفہ کے مشکلات کو حل کرسکی ہے- لیکن پہیلی مشکل، یعنی وحدت اور دوگانگی کے آپسی منافات کو اس طرح حل کیا ہے کہ وحدت نفس کا مراد، وحدت ” حقہ ظلیلہ” ہے جو کثرت کے مقابلے میں نہیں ہے اور وحدت حقہ، چونکہ اطلاق مقسمی سے مطلق ہے اس لئے اطلاق کی مقید نہیں ہے اور مقید میں پائی جاتی ہے، اور مطلق کا اطلاق سے خارج ھونا اور تقید اور تعین سے ملبس ھونا اس طرح ہے کہ مطلق و مقید کے درمیان تباین مصداقی پیدا نہیں ھوتا ہے اور ایک دوسرے کے مقابل میں قرار نہیں پاتے ہیں، یعنی ایک صورت میں حلول یاتجافی نہیں ہے- کثرت کے معنی اسی ذات کا جلوہ ہے، نہ یہ کہ واحد کے مقابلے میں اس کا کوئی الگ وجود ھو- پس، نفس اور بدن کے تجلی کے نظام کی بنا پر، دوگانگی کے باوجود وحدت پائی جاسکتی ہے-
اسی طرح حکمت متعالیہ، دوسری مشکل کو نفس کی حرکت جوہری اور جسمانیۃ الحدوث ھونے کے طریقہ سے حل کرنے کے لئے علیت کو تجلی میں لوٹا دینے سے نفس اور بدن کے درمیان رابطہ کو بہترین بیان میں پیش کرنے میں کامیاب ھوئی ہے-
نفس اور بدن کے درمیان وحدت کے نظریہ کو ثابت کرنے کی دلائل:
پہلی دلیل{ اخلاقی دلیل}
چند بدیہی اور واضح مطالب کے پیش نظر یہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ نفس کے مراتب میں سے ایک مرتبہ بدن ہے:
الف} ہر شخص بدیہی اور اخلاقی علم سے جانتا ہے کہ اس کے وجود میں دوقسم کی متفاوت خصوصیات پائی جاتی ہیں، ان میں سے ایک قسم نفسانی خصوصیت ہے اور دوسری جسمان خصوصیت ہے-
ب} ہر شخص واضح طور پر جانتا ہے کہ وہ ایک ھویت اور شخصیت کا مالک ہے اور وہ اپنے تمام وجودی افعال و آثار کو اسی ایک ہویت سے نسبت دیتا ہے، مثال کے طور پر برسوں پہلے انجام دئے گئے کام کے بارے میں بھی اس وقت کہتا ہے کہ میں نے انجام دئے ہیں، جبکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس مدت کے دوران اس کے بدن کا ڈھانچہ کئی بار تبدیل ھوا ہے اور بچپن سے گزر کر نوجوانی، ادھیڑ عمر، کہن سالی ار بوڑھاپے کے مرحلہ میں پہنچا ہے- اس بنا پر نفس اور بدن کی ترکیب اتحاد پر مبنی ہے { نہ انضمام پر} اور انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو بلند { تعقل کے} مرتبہ سے نچلے {جسم} کے مرتبہ تک ایک ہی شخصیت ہے-[7]
ج} وحدت و اتحاد رکھنے والی دو چیزوں کے درمیان رابطہ کی قسم کے بارے میں عاقلانہ بیان، ظاہر و مظہر کی تجلی کو بیان کرنا ہے، اس بنا پر نفس اور بدن کے درمیان رابطہ بھی ظاہر و مظہر کے رابطہ کی ایک قسم ھونی چاہئے، کہ روح کی اصالت اور قدرت کی وجہ سے بدن روح کا نچلا مرتبہ ہے- اس وضاحت کے بعد ثابت ھوتا ہے کہ حکمت متعالیہ کے ذریعہ مغربی فلسفہ کی سب سے بڑی مشکل کیسے حل ھوئی ہے-
۲-دوسری دلیل { تجربی دلیل یا نفس اور بدن کے درمیان متقابل تاثیر}
یہ استدلال دو مقدمات سے تشکیل پایا ہے:
پہلا مقدمہ: نفس اور بدن تاثیر و تاثرات رکھتے ہیں-
دوسرامقدمہ: جن چیزوں کے درمیان تاثیر و تاثر کا رابطہ بر قرار ھو، ان کے درمیان اتحاد و وحدت ھوتی ہے- ایسا لگتا ہے کہ پہلا مقدمہ { قیاس کا صغری} نفسیاتی مسائل سے آگاہی رکھنے والوں کے لئے، واضح اور بدیہی مطلب ہے، حتی ان لوگوں کے لئے بھی بدیہی ہے، جو نفس کے وجود کے قائل نہیں ہیں، نفسانی اور جسمانی حالتوں کے درمیان متقابل تاثیر، سے انکار نہیں کرتے ہیں-
لیکن دوسرے مقدمہ{ قیاس کے کبری} کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: حکمت متعالیہ کی بنا پر، جن چیزوں کے درمیان تاثیر و تاثر کا رابطہ بر قرار ہے، ان کے درمیان اتحاد و وحدت پائی جاتی ہے- ورنہ وجودی تباین رکھنے والی چیزیں آپس میں تاثیر و تاثر کا رابطہ بر قرار نہیں رکھ سکتی ہیں- بہ الفاظ دیگر حکمت متعالیہ کے مطابق علیت، تجلی کی طرف پلٹتی ہے، نتیجہ کے طور پر علت و معلول کا رابطہ اتحادی رابطہ میں بیان ھوتا ہے-
اس کی وضاحت کے لئے کہ، نفس کی بدن پر تاثیر کیسے اس امر کی دلیل ھوسکتی ہے کہ بدن نفس کا نچلا مرتبہ ہے،  ہم اس مثال سے مدد لیتے ہیں کہ: اگر ہم ایک انسان کا اس کی ایک خاص عمر میں وزن لے لیں، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس عمر میں اس وزن کے ھوتے ھوئے اتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے یا اس قدر مسافت طے کرسکتا ہے، لیکن انسان غضب اور عشق کی حالت میں اس کے کئی گنا وزن اٹھا سکتا ہے یا اس سے زیادہ مسافت طے کرسکتا ہے- اب ہم کہتے ہیں کہ اس کے بدن کا وزن وہی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، پس یہ تیزی اور چابک دستی اور یا کاہلی اور سستی کہاں سے آگئی ہے؟ اس کے بدن سے تو نہیں ہے، کیونکہ دونوں حالتوں میں اس کا بدن یکساں ہے اور اگر نفس، بدن کی کوئی چیز ھو، تو دو مقرون جسموں کا ہر حالت میں ایک ہی وزن ھونا چاہئیے، بہر حال یہ اختلاف، نفس ناطقہ کی تبدیلی کی وجہ سے ہے اور بدن، نفس ناطقہ کا نچلا مرحلہ ہے- پس وہ سستی، تیزی، ابھرنے ار دوڑنے، تازگی، زیبائی، اور بدن کے دوسرے گونا گون کام جو انسان کے مغز، نظام ہاضمہ، ضربان قلب اور دوسرے ادراکات نفس سے متعلق ھونے چاہئے، ظاہر و باطن میں بدن اس کا ظہور اور تجلی کرتا ہے اور ہر حالت کے مطابق اس کا ایک خاص نام ھوتا ہے-[8]
نتیجہ کے طور پر، اس نظریہ کی بنا پر کہ بدن، نفس کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے، قابل بیان ہے کہ حقیقت میں بدن، نفس و روح کے اندر ہے نہ یہ کہ روح، بدن کے اندر ہے-[9]
کیونکہ نفس اور روح وجودی جامعیت اور طاقت کے مالک ہیں، کہ بدن ان کی شعاعوں میں سے ایک شعاع ہے-
تبصرے
Loading...