“تناسخ” کے بارے میں اسلام کا نظریه کیا هے؟

انبیائے الهی علهیم السلام کے مکتب کے مطابق انسان کی موت آنے سے اس کی روح بدن سے جدا هو کر عالم برزخ میں منتقل هو تی هے اور اس دنیا میں اپنی زندگی جاری رکھتی هے- اگر مر نے والا نیک انسان هو تو اسے اس دنیا (برزخ) میں اس کے نیک اعمال کا جزا ملیگا، لیکن اگر وه برے لوگوں میں سے هو تو اسے اپنے برے کاموں کی سزا ملتی هے ، یهاں تک که قیامت آجائے – انبیاء علیهم السلام کے مکتب کے مطابق قضائے الهی کا تقاضا یه هے که موت کے بعد انسان کی روح پھر سے دنیا میں پلٹ کر نه آجائے اور اس دنیا میں نئی زندگی کا آغاز نه کرے ، بلکه برزخ میں رهے تاکه قیامت آجائے اور آخرت کی ابدی دنیا  میں منتقل هو جائے-

لیکن صدیوں قبل هندوستان میں آوا گون (تناسخ) کے نام سے ایک نظریه پیش کیا گیا، جس میں روح کے دوباره دنیا میں پلٹ کر آنے اور بار بار رفت وآمد کی بات کی گئی هے- زمانه کے گزرنے کے بعد اس نظریه نے رفته رفته دنیا کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی توجه کو اپنی طرف مبذول کیا اور وه اسے ایک حقیقی امر سمجھنے لگے اور یهاں تک  که بعض لوگ اسے ایک مذهبی عقیده کے طور پر ماننے لگے- اس مدت کے دوران بعض بڑے دانشوروں نے اس مسئله پر بحث و تحقیق کر کے اس کے باطل هو نے کے بارے میں کئی دلائل پیش کئے هیں-

تناسخ کے حامی یه اعتقاد رکھتے هیں که انسانوں کے دو گروهوں کی روح دنیا میں دوباره پلٹ کر نهیں آتی هے: ان دو گرهوں میں پهلے وه لوگ هیں جو سعادت کی راه میں کمال تک پهنچ گئے هوں اور مر نے کے بعد کمال مطلق سے ملحق هو تے هیں – ان میں کوئی کمی نهیں پائی جاتی هے تاکه وه دوباره دنیا میں آکر تلاش و کوشش اور عمل کے ذریعه اپنی گزشته زندگی کی کمی کی تلافی کریں-

دوسرے گروه سے مربوط وه لوگ هیں جو شقاوت وبدبختی کے انتهائی درجے پر پهنچے هوں- یه لوگ بھی دوباره دنیا میں پلٹ کر نهیں آتے هیں ، کیونکه یه لوگ اپنی دنیوی زندگی میں اس قدر گمراهی وبدبختی سے دوچار هو تے هیں که ان پر سعادت کا راسته مسدود هو تا هے اور ابدی زوال سے دوچار هو جاتے هیں اور دو باره دنیا میں آکر اپنی گزشته زندگی کی برائیوں کی سعی وتلاش اور عمل سے تلافی کر نے کی صلاحیت نهیں رکھتے هیں تاکه وه سعادت وکمال کے حتی نسبتی اور محدود درجه تک پهنچ جائیں-

ان کا اعتقاد هے که تناسخ اور پلٹ کر دوباره دنیا میں آنا تیسرے گروه سے مخصوص هے ، یعنی متوسط گروه، جو سعادت حاصل کر نے والے اور زوال و شقاوت سے دوچار هو نے والے گروه کے در میان هے- یه لوگ جب دنیا سے رخصت هو تے هیں ، تو ان کی روح دوباره دنیا میں پلٹ کر آتی هے اور وه اپنے مختلف اعمال کے تناسب سے مختلف صورتوں اور شکلوں میں دوباره دنیا میں جنم لیتے هیں – اسی لحاظ سے انهوں نے هر شکل وصورت کے لئے ایک مخصوص نام رکھا هے- اگر یه لوگ انسان کی صورت  میںجنم لیں گے تو اسے “نسخ” کهتے هیں اور اگر کسی حیوان کی صورت میں جنم لیں گے تو اسے “فسخ” کهتے هیں اور اگر انسان کی روح جمادات میں منتقل هو جائے تو اسے “رسخ” کهتے هیں-

تناسخ کے قائل لوگ عقیده رکھتے هیں که، دنیا میں دوباره پلٹ کر آنے والی ارواح میں سے بعض اپنی گزشته زندگی کےبرے اعمال کی تلافی کر کے انسانیت کے بلند درجات حاصل کرتے هیں – اس کے علاوه یه لوگ کهتے هیں : ارواح کے دو باره دنیا میں پلٹ کر آنے کی وجوهات میں سے ایک  وجه یه بھی هے که اچھے اور نیک لوگ اپنی نئی زندگی میں اچھے اخلاق اور پسندیده اعمال کا جزا پائیں اور برے لوگ اپنے برے اعمال کی سزا پائیں- ممکن هے بعض لوگوں نے گزشته زندگی میں انسانی اخلاق اور نیک اعمال انجام دئے هوں ، ، لیکن همیشه گوناگوں محرومیتوں اور فقر و تنگد ستی اور مصیبت و آلام اور بیماریوں سے دوچار رهے هوں ، یه لوگ بعد والی زندگی میں اپنے پسندیده اخلاق کی جزا پاتے هیں اور رفاه وصحت وسلامتی کی نعمت سے مالا مال هو تے هیں اور ممکن هے کچھـ لوگ اپنی گزشته زندگی میں برے اخلاق اور نا پسند اعمال انجام دے چکے هوں اور لوگوں کو اذیت و تکلیف پهنچاچکے هوں لیکن مختلف قسم کی دنیوی نعمتوں سے مستفید رهے هوں –ایسے لوگوں کی ارواح دوسرے جنم میں ان کے اخلاق کے تناسب سے حیوانات ، حشرات، نباتات ، جمادات یا ناقص افراد جیسے: معلول، بیمار اور معاشره کے مسترد اور نا پسند انسانوں کی صورت میں جنم لیتے هیں اور بهر صورت روحانی و جسمانی عذاب سے  دوچار هوتے هیں-

لیکن اسلام ، ارواح کےدوسرے شخص ، یا دوسرے جانداروں کی صورت میں  جنم لے کر گزشته اعمال کی تلافی کر نے کے نظریه کو قبول نهیں کرتا هے بلکه اس نظریه کو کھلم کھلا مسترد کر تا هے – قرآن مجید اس سلسله میں ارشاد فر ماتا هے: ” یهاں تک که جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کهنے لگا که پروردگارا! مجھے پلٹ دے ، شاید میں اب (اگلے جنم میں ) کوئی نیک عمل انجام دوں ( جواب دیا جاتا هے: ) هرگز نهیں یه ایک (بے بنیاد) بات هے جو یه کهه رها هے اور ان کے (موت کے) پیچھے ایک عالم بر زخ هے جو قیامت کے دن تک قائم رهنے والا هے-“[1]

جبکه تناسخ پر اعتقاد رکھنے والوں کے لئے ، قیامت ، حساب وکتاب، بهشت و دوزخ اور آخرت کے ثواب و عذاب کے بارے میں کوئی حقیقت باقی نهیں رهتی ، کیونکه وه کهتے هیں که تقریباً اکثر لوگ مر نے کے بعد مسلسل دنیا میں دوباره پلٹ کر آتے رهتے هیں اور هر بار دنیا میں اپنے اعمال کے جزا وسزا کو پاتے هیں – اس قسم کا نظریه انبیاء علیهم السلام کی تعلیمات سے تضاد رکھتا هے اور دین اسلام کے نظریه کے بھی مخالف هے اور شیعوں کے ائمه اطهار علیهم السلام نے اس نظریه کی کھلم کھلا مخالفت کی هے اور اسے کفر جانا هے – مامون رشید نے حضرت امام رضا علیه السلام کی خد مت میں عرض کی: ” تناسخ کا اعتقاد رکھنے والوں کے بارے میں آپ کیا فر ماتے هیں؟ حضرت (ع)نے جواب میں فر مایا :” جو تناسخ کو قبول کرے اور اس کا عقیده رکھتا هو، اس نے خدا وند متعال سے کفر کیا هے اور بهشت و دوزخ کو غیر حقیقی جانا هے-“[2]

امام جعفر صادق علیه السلام نے بھی تناسخ کے قائلین کے بارے میں فر مایا هے که: ” انهوں نے خیال کیا هے که نه کوئی بهشت هے اور نه کوئی جهنم اور نه پھر سے اٹھنا اور زنده هو نا هے، ان کی نظر میں قیامت یه هے که روح ایک بدن سے نکل کر دوسرے بدن میں داخل هوتی هے- اگر مر نے والا پهلے جنم میں نیک آدمی تھا تو اس کا دوسرے برتر اور نیک بدن میں منتقل هو نا دنیا کے عالی ترین درجه پر فائذ هو نا هو گا، لیکن اگر وه بد کار اور نادان تھا تو اس کی روح دوسرے جنم میں کسی بارکش اور زحمت کش حیوان کے بدن میں منتقل هوگی یا چھوٹے اور بد صورت پرندے میں منتقل هوگی جورات کو پرواز کرتا هے اور قبرستانوں سے لگاٶ رکهتا هے-“[3]

البته قابل توجه بات هے که مسئله تناسخ اور روح کا دوباره دنیا میں پلٹ کر آنا صرف انبیائے الهی کے مکتب کے مخالف اور خدا سے کفر ،معاد وآخرت کے ثواب وعذاب سے انکار کا سبب هی نهیں هے بلکه علمی لحاظ سے بھی دانشوروں اور فلاسفه نے اسے مسترد سمجھـ کر اس کے باطل هو نے کے سلسله میں کئی دلائل پیش کی هیں-

مشهور فلاسفر ، صدر المتا لھین شیرازی کهتے هیں : ” — تکوین کے پهلے مرحله میں نفس کا در جه ، طبیعت کا درجه هے- اس کے بعد ماده، کمال کی طرف حرکت کے تناسب سے، ترقی کرتا هے یهاں تک که نباتات اور حیوانات کی سرحد سے گزرتا هے- اس بناء پر ، جب نفس ایک قوت کے مرحله سے فعلیت کے مرحله میں داخل هو تا هے، اگر چه وه فعلیت حقیر اور نا چیز هو، نا ممکن هے وه دوباره صرف قوت اور استعداد کی طرف پلٹ جائے- اس کے علاوه جس طرح پهلے اشاره کیاگیا ، صورت و ماده دونوں ایک هی چیز هیں جس کے دو پهلو، فعل وقوت هیں اور ایک ساتھـ کمال کی راه کو طے کرتے هیں اور هر استعداد و قابلیت کے مقابل میں خاص فعلیت میں تبدیل هو تے هیں –اس بناپر، ناممکن هے که جو روح نباتی اور حیوانی حد سے گزرچکی هو، وه منی اور جنین کے ماده میں تبدیل هو جائے-“[4]

نظریه تناسخ کی دوسری مشکل یه هے که ، ایک شخص کے ٧٢کے زمانه میں هو نے کے بارے میں کیسے دعوی کیا جاسکتا هے که ٧١ کے زمانه میں وهی شخص تھا؟ هم میں سے هر ایک اپنی پوری زندگی کے دوران، متعدد مراحل کو طے کرتا هے ، جن کی جسمانی اور روحانی خصوصیات ایک جیسی نهیں هوتیں ، لیکن بعض حلقے جیسے یادیں ان مراحل کو آپس میں ملانے کے سلسله میں قابل تصور هیں اور یهی حلقے ایک شخص کے واحد هو نے کے صحیح هو نے کی تائید کرتے هیں –لیکن تناسخ کے نظریه کے مطابق کس دلیل کی بناء پر دوزمانوں ٧١ اور ٧٢ میں روح کے ایک هی هو نے کو ثابت کیا جاسکتا هے؟ اگر اس کا معیار یادوں کا سلسله جاری رهنا هو، تو تقریباً اکثر افراد میں ( که تناسخ کے نظریه کے مطابق معاشره کے اکثر افراد تناسخ کے چکر میں قرار پاتے هیں ) شخص اپنی گزشته زندگی کے بارے میں کوئی یاد نهیں رکھتااور اگر اس کا معیار جسم کا سلسله جاری رهنا هے، تو پھر بهی تناسخ کے فرضیه میں اس کا کوئی مصداق نهیں پایا جاتا هے ، کیونکه اس نظریه کی بناپر ، فرد کبھی عورت کی صورت میں اور کبھی مرد کی صورت میں اور کبھی انسان کی صورت میں اور کبھی حیوان کی صورت میں ، دنیا میں آتا هے اور اگر معیار اس کے نفسیاتی رجحانات کے مشابه هو نا هو تو فرد ” الف” اور فرد”ب” کی ثنویت جو ایک زمانه میں اسی مشابهت کو رکھتی تھی ، قابل تو جیه نهیں هے- دوسرے الفاظ میں مشکل اس طرح پیش آتی هے که نفسیاتی خصوصیات میں کس قدر مشابهت ضروری هے تاکه دومفروضه افراد کے بارے میں ایک هونے کا حکم کیا جاسکے؟ لهذا شخص کی هویت کا جاری رهنا مفروضه زمانه میں ممکن نهیں هے –[5]

نظریه تناسخ کے وجود میں آنے کے عوامل :

یهاں پر مناسب هے که هم نظریه تناسخ کے وجود میں آنے کے بعض عوامل کے بارے میں اشاره کریں:

الف: فکری اور فلسفی عوامل:

١- قیامت اور دوسری دنیا کا انکار:

بعض لوگ چونکه دوسری دنیا کا اعتقاد نهیں رکھتے تھے اور شائد اسے ناممکن جانتے تھے اور دوسری جانب سے نیک وبد انسانوں کے جزا وسزا کے عدم وجود کو عدل الهی کے مخالف جانتے تھے، اس لئے یه لوگ اعتقاد رکھنے لگے که نیک انسانوں کی روح دوباره کسی دوسرے بدن میں منتقل هوتی هے جو اسی دنیا میں پهلے کی نسبت کئی درجه خوش بخت تر هو تا هے اور اپنے گزشته اعمال کا جزا پاتی هے اور برے لوگوں کی روح ایسے بدن میں منتقل هوتی هے جو رنج و مصیبت سے دو چار هو تے هیں یا ناقص الخلقت هو تے هیں تاکه اپنے برے اعمال کی سزا پا سکے – حقیقت میں بدن تزکیه کا وسیله بن کر تکامل پاتے هیں-

٢- بیمار اور ناقص الخلقت بچوں کی پیداقش کے فلسفه کی ایک توجیه

کچھـ لوگ، بعض بچوں کے ناقص الخلقت اور بیمار صورت میں پیدا هو نے کے سلسله میں اس فکر میں پڑ تے هیں که ان بچوں نے تو کوئی گناه نهیں کیا هے، کیوں پروردگار عالم نے انھیں اس صورت میں پیدا کیا هے اور انھیں اس مصیبت میں مبتلا کیا هے، حتمی طور پر ان بچوں میں پائی جانے والی ارواح ، ان افراد کی هیں جو اپنے گزشته جنم میں شریر ، گناهگار اور ظالم تھے اور اپنے برے اعمال کی سزا پانے کے لئے اس صورت میں پیدا هو ئے هیں اور دوباره اس دنیا میں بھیجے گقے هیں تاکه رنج ومصیبت سے دوچار هو جائین!

ب: نفسیاتی عوامل :

١- زندگی میں پیش آنے والی ناکا میوں اور شکستوں کی تلافی :

ایسا لگتا هے که اس عقیده کی ایک نفسیاتی علت، گوناگوں ناکامیاں هیں جن سے بهت سے لوگوں کو سامناکرنا پڑتا تھا – ان ناکامیوں کا نفسیاتی رد عمل گوناگوں صورتوں میں ظاهر هو تا تھا – بعض اوقات “درون گردانی” کی صورت میں اور تخیّلات میں غرق هو کر عالم تصورات میں اپنے گم شده کو پانے کی کوشش کرتے تھے، جیسا که بهت سے شعراء کے کلام میں پایا جاتا هے ، که جب وه اپنے محبوب کو اس دنیا میں پانے میں ناکام هو تے تھے ، تو عالم تصورات میں اس کی تصویر کھینچ کر اسے ” جام” میں مشاهده کر کے خوش فهمی میں رهتے تھے ! ان میں سے بعض لوگ اس دنیا میں دوباره زندگی کے خیال کو اپنے افکار کی پریشانیوں کو تسکین بخشنے کا وسیله قرار دیتے تھے –

ناکامی اور شکست سے دو چار هوئے یه افراد اپنی ناکامیوں کی تلافی کر نے کے لئے ایسا تصور کرتے تھے که ان کی روح اس دنیا میں ایک بار پھر کسی نئے بدن میں حلول کرے گی اور وه اپنی آرزٶں تک پهنچ سکیں گے-

٢- تشدّد آمیز اعمال کی توجیه:

اس عقیده کا نفسیاتی عوامل میں سے ایک اور عامل یه تھا که اپنے تشدّد آمیز اعمال کا انتقام لینے کی صورت میں توجیه کریں – مثلاً زمانه جاهلیت کے اعراب اپنے انتقامی جذبه کو عملی جامه پهنا نے کے لئے عجیب دباٶ اور سختی کا مظاهره کرتے تھے اور ممکن تھا وه کسی شخص یا قبیله کے بارے میں اپنے کینه کو اپنے آبا و اجداد سے وراثت میں پاتے ، کبھی اپنے وحشیانه انتقامی جذبه کی توجیه کر نے کے لئے اس عقیده (تناسخ) کا سهارا لیتے تھے – ان کا اعتقاد تھا که جب ان کے قبیله کا کوئی فرد قتل کیا جاتا ، اس کی روح “الّو” جیسے ایک پرندے کی شکل میں قرار پاتی تھی ، جسے وه” هامه ” کهتے تھے اور وه پرنده مقتول کے جسد کے گرد مسلسل پرواز کر تا تھا اور خوفناک صورت میں ناله وفریاد بلند کرتا تھا اور جب اس جسد کو قبر میں رکھتے تھے ، تو وه پرنده اس کی قبر کے گرد چکر لگاتا تھا اور مکرر اسقونی !اسقونی! کی فریاد بلند کرتاتھا— “یعنی میری پیاس بچھاٶ ” اور جب تک قاتل کا خون نه بهایا جاتا اس کے یه غم ناک ناله وفریاد خاموش نهیں هوتے تھے-

آخر پر اس نکته کی طرف توجه کر نا ضروری هے که رجعت کا اعتقاد ( جو شیعوں کے عقائد میں سے ایک سچا عقیده هے ) تناسخ کے اعتقاد سے فرق رکھتا هے ، چونکه رجعت میں ، روح ابتدائی کمالات کے تحفظ کے ساتھـ اسی پهلے والے بدن میں پلٹ کر آتی هے اور اسی وجه سے معدوم کا اعاده لازم نهیں آتا هے اور یه فعلیت کے قوت میں تبدیل هونا نهیں هے ، اس کے بر خلاف تناسخ میں روح فعلیت میں تبدیل هو نے کے بعد اور مادی و طبیعی کمال کے مرا حل طے کر نے کے بعد دوسرے بدن میں پلٹتا هے –



[1] – سوره مٶمنون ،٩٩-١٠٠-

[2] – سفینه البحار ، ماده نسخ-

[3] – احتجاج طبرسی ،ج٢،ص٨٩-

[4] – شواهد الربو بیه،ص١٦١-

[5] – معارف اسلامی ، نهادنما یندگی ،ص١٧٥-

تبصرے
Loading...