بدعت کیا ھے اور اس کے احکام کیا ھیں؟

آپ کے سوالات کا جواب واضح کرنے کیلئے درج ذیل چند نکات کا بیان کرنا ضروری ھے :

۱۔ دین میں بدعت ایجاد کرنا : ایک ایسی چیز کو دین سے نسبت دینا جو حقیقت میں دین کا حصھ نھ ھو ، یھ گناه کبیره ھے اور اس کے حرام ھونے میں کسی قسم کا شک و شبھھ نھیں ھے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے فرمایا: ” کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار”[1] ایک ایسی چیز کو ایجاد کرنا جو پھلے سے دین میں نھ ھو بدعت ھے اور ھر بدعت گمراھی ھے اور ھر گمراھی آگ میں ھے۔

۲۔ دین میں تازه اور پھلے سے نھ ھونے والے امر سے مراد یھ ھے کھ وه امر اسلام کے قوانین و وقواعد و ضوابط کے موافق نھ ھو ، پس اسلام کے کلی قواعد و ضوابط کی جدید مسائل و موضوعات سے تطبیق کرنا بدعت نھیں ھے[2] ۔

۳۔ بدعت ، یعنی کسی چیز کو دین کے عنوان سے پیش کرنا جبکھ وه چیز دین کے کسی بھی احکام اور قواعد سے موافق نھ ھو ، مسائل کے سلسلھ میں ایک اھم مطلب حاصل ھوتا ھے اور وه مطلب یھ ھے کھ باطل کو کبھی اپنے اصلی اور حقیقی روپ میں کامیابی حاصل نھیں ھوتی ھے ، کیوں کھ وه اندر سے کھوکھلا ھوتا ھے ، اس لئے اس کو اپنی طرف توجھ مبذول کرانے کیلئے حقیقت کا رنگ چڑھا کر حقیقت نما بھروپ ظاھر کرنا پڑتا ھے۔ کیوں کھ تمام انسان ، بلکھ تمام مخلوقات حقیقت کے طالب ھیں اور پوری تاریخ میں باطل کی سرگرمیوں کا ایک اھم میدان ثقافتی میدان رھا ھے تا کھ اس طریقھ سے اپنی بد نما صورت کو خوبصورت اور حقیقی جیسا پیش کرے ۔

قرآن مجید نے باطل کے اس حربھ کے بارے میں بیس سے زیاده مواقع پر ” تزین” (خوبصورت بن کر پیش ھونے ) کی تعبیر بیان کی ھے، مثلا ارشاده ھے : ‘ و زین لھم الشیطان اعمالھم”[3] شیطان ان کے اعمال کو ان کی نظر میں خوبصورت دکھاتا ھے ” یا فرمایا ھے : ‘ افمن زین لھ سوء عملھ فراه حسنا “[4] کیا جس کے لئے اس کا برا عمل آراستھ ھوکر اسے خوبصورت روپ میں دکھائی دیتا ھے ( اس کے مانند ھے جو حقیقت کو اپنے اصلی اور حقیقی روپ میں پاتا ھے ) ؟ !

اسی وجھ سے ظالم حکام اور سامراجی طاقتوں نے پوری تاریخ میں بلکھ آج تک اسی حربھ سے کام لیا ھے اور نئے دین ایجاد کئے ھیں ، نئے نئے مذاھب اور گوناگون عقیدے وجود میں لاتے رھے ھیں تا کھ اس طرح ادیان الھی سے مقابله کرکے حق کو چیلینج کرسکیں۔

لیکن دشمن کی مختلف تبلیغاتی روشوں کی تحقیق کرنا اور بظاھر خوبصورت چھروں میں سے باطل کے مخفی اور پر فریب چھره سے نقاب اٹھانا آسان نھیں ھے اور وھی لوگ یھ کام انجام دے سکتے ھیں جو بلند علمی وفکری توانائی کے مالک ھوں ، شائد اسلام میں علماء کی ھم نشینی کی تاکید کا فسلفھ یھی ھے[5] کھ حقیقی دانشوروں سے رابطھ برقرار رکھنے سے انسان انحراف کے خطرے سے بچ سکتا ھے۔

مختصر یھ کھ ھمیں ھوشیار رھنا چاھئے تا کھ بظاھر آراستھ اور ایک ساده پارٹی یا گروه دھوکھ نھ دے سکے بلکھ ھمیں ان کے خوبصورت روپ میں مخفی سیاسی ، اجتماعی اور ثقافتی مقاصد کو مد نظر رکھنا چاھئے ، اس دعوی کی صداقت کے بھترین گواه ان دستاویزات اور مدارک کا انکشاف ھے جن سے یھ ماجرا طشت از بام ھوتا ھے کھ سامراجی طاقتیں مخفی اور علانیھ صورت میں اس قسم کے گروه اور پارٹیاں بناتی ھیں اور انھیں طاقت بخشتی ھیں۔

۴۔ چوتھا نکتھ یھ ھے کھ انحراف کی کبھی اس کے ابتدائی مراحل میں تحقیق نھیں کی جانی چاھئے بلکھ اس انحراف کے جاری رھنے کے سلسلھ میں اس کے مستقبل پر نظر ڈالنی چاھئے جس طرح جیومیٹری کے مسائل میں زاویھ کا فاصلھ ابتداء میں بالکل قابل توجھ نھیں ھوتا ھے ، لیکن جب یھی زاویھ آگے بڑھتا ھے تو وھی نامحسوس فاصلھ سیکڑوں بلکھ ھزارون کلومیٹر میں تبدیل ھوجاتا ھے۔

یھیں سے روایتی فقھ کے فلسلھ اور راز کو سمجھا جا سکتا ھے ، جو دینی حوزوں میں رائج ھے اور مراجع تقلید کی اطاعت کی ضرورت کو سمجھا جا سکتا ھے کھ یھ کھ اس روش کی ائمھ اطھار علیھم السلام نے کس لئے تاکید کی ھے[6] ، وه فلسفھ بھی معلوم ھوجاتا ھے۔ دینی کتابوں کے حقائق کو سمجھنے کے لئے یھ روش مستحکم ترین عقلی روش ھے[7] ۔

بھر حال دین میں بدعت کا پھیلانا سیاسی ، اجتماعی ، اور ثقافتی برائیوں کے اثرات پھیلنے کا سبب بن جاتا ھے اور یھ دین کو معاشره میں خراب کرنے کا اھم ترین عامل ھے ۔ شائد ان ھی وجوھات کی بنا پر پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے مسجد ضرار کو منھدم کرنے کا حکم دیا تھا[8] کیوں کھ قرآن مجید نے اس سلسلھ میں فرمایا ھے :’ اور جن لوگوں نے مسجد (ضرار ) بنائی کھ اس کے ذریعھ اسلام کو نقصان پهنچائیں اور کفر کو تقویت بخشیں اور مؤمنین کے درمیان اختلاف پیدا کرائیں اور پھلے سے خدا ورسول سے جنگ کرنے والوں کے لئے پناه گاه تیار کریں وه بھی منافقین ھیں اور یھ قسم کھاتے ھیں کھ ھم نے صرف نیکی کے لئے مسجد بنائی ھے حالانکھ یھ خدا گواھی دیتا ھے کھ یھ سب جھوٹے ھیں۔[9]

البتھ یھ واضح ھے اور مجتھدین کا فتوی بھی یھی[10] ھے کھ اس فرقھ سے مربوط مذھبی عمارتوں کو منھدم کرنے کا کام مسلمانوں کے ولی اور حاکم کے حکم سے انجام پانا چاھئے ورنھ افراتفری پھیلنے کا اندیشھ ھے ، ان کی مجلسوں میں راھنمائی اور امر بالمعروف کی غرض سے شرکت کرنا ان لوگوں کے لئے جائز ھی نھیں بلکھ واجب بھی ھے جو علمی و عملی توانائی رکھتے ھوں۔[11]اور اپنی بات کے مؤثر ھونے کا امکان بھی رکھتے ھوں۔

لیکن یھ کھ کیا انحرافات اور بدعتوں کے پیش نظر ایسے لوگوں کو مذھب تشیع سے خارج کیا جاسکتا ھے ؟ اس سلسلھ میں وضاحت لازم ھے کھ ان گروھوں سے وابستھ افراد کی چند قسمیں ھیں ، بعض ایسے ھیں جو شیعوں کے عقائد کا کوئی اعتقاد نھیں رکھتے ھیں بلکھ صرف بظاھر شیعھ عقائد کا اظھار کرتے ھیں ، یھ لوگ حقیقت میں ان گروھوں کے سرپرست اور چلانے والے ھیں ، یھ لوگ مذھب تشیع سے خارج ھیں اور خود بھی اس بات کو بخوبی جانتے ھیں ۔ لیکن ان میں بعض دوسرے افراد ھیں جو حقیقت میں شیعھ عقائد پر اعتقاد رکھتے ھیں اور زیاده سے زیاده انحراف و اشتباه فکری و عملی سے دوچار ھوئے ھیں لھذا بعض مسائل میں انحراف کرنا تشیع سے خارج ھونے کا سبب نھیں بنتا ھے۔ [12]



[1] بحار الانوار ، ج ۲ ، ص ۲۶۳ ، مسند ، احمد ، ج ۴، ص ۱۲۶۔

[2]  منشور عقاید ، سبحانی ،جعفر، ص ۲۱۹۔ کے بعد۔

[3] سوره نحل / ۲۴

[4]  سوره فاطر/ ۸

[5] کافی ، ج ۱،باب مجالسۃ العلماء و صحبتھم۔

[6] وسائل الشیعھ ، ج ۱۸،ص ۱۹ امام صادق علیھ السلام سے روایت ھے کھ :”مں کان منکم قد روی حدیثنا و نظر فی حلالنا و حرامنا عرف احکامنا۔۔۔ فانی قد جعلتھ حاکما”۔ جو شخص ھمارے احادیث کو نقل کرتا ھے ، اور ھمارے بیان کرده حلال و حرام کا مطالعھ کرکے اسے پھچان لیتا ھے ، ایسے شخص کو میں نے حاکم مقرر کیا ھے۔ شیخ صدوق کمال الدین و تمام النعمۃ ج ۲ ص ۸۴۴ میں امام عصر (عج) سے روایت کرتے ھیں: ” و اما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا الی روۃ احادیثنا فانھم حجتی علیکم و انا حجۃ اللھ” رونما ھونے والے حوادث کے بارے میں ھماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو کیوں کھ وه آپ پر میری حجت ھیں اور میں خد کی حجت ھوں۔

[7]  مزید معلومات کیلئے اصول فقھ اور فقھ کی استلالی کتابوں کی طرف سے رجوع کیا جائے۔

[8]  سیره ابن ھشام ج ۲، ص ۵۳۰۔ بحار الانوار ج ۲۰ ص ۲۵۳۔

[9]  سوره توبھ / ۱۰۷۔

[10]  امام خمینی تحریر الوسیلۃ ج ۲ ، ص ۴۵۴۔

[11] امام خمیںی ، تحریر الوسیلۃ ج ۱ ص ۳۶۲، ۳۶۳۔

[12]  اقتباس از سوال ۱۸۷۸.

تبصرے
Loading...