اگر قیام عاشورا میں امام حسین (ع) کامیاب هوتے اور حکومت تشکیل دے پاتے، تو دنیا کی آج کیسی حالت هوتی؟ اور کیا اس صورت میں کوئی شخص دین اسلام کے بارے میں شک و شبهه کرسکتا تھا؟

اس سوال کے جواب میں، سب سے پهلا قابل توجه نکته، یه هے که هر مسلمان کو خداوند متعال کی طرف سے اپنے فریضه کو پهچاننے اوراسے انجام دینے کی فکر کرنی چاهئے نه اس کے ظاهری نتیجه کے بارے میں که کیا پیش آئے ـ اگر فریضه انجام پایا توخداوند متعال کی بے انتها قدرت پر بھروسه کرنا چاهئے اور اپنی پوری توانائی کو فریضه انجام دینے میں صرف کرنا چاهئے، اس صورت میں نتیجه جو بھی هو خداوند متعال کے صالح بنده کے لئے خیر هوگی، لیکن چونکه اسلام کے بهت سے بلند مقاصد کو حاصل کرنا، معاشره کا خیر و نیکی کے مقام تک پهنچنا اور بهت سے شرعی احکام کا نفاذ اسلامی حکومت کی تشکیل پر منحصر هے ، اس لئے ائمه اطهار علیه السلام همیشه اسلامی حکومت کی تشکیل اور معاشره کی باگ ڈور کو اپنے هاتھـ میں لینا اپنے بنیادی فرائض میں سے جانتے تھے ـ اگر بظاهر کبھی انهوں نے اس کے لئے کوشش نهیں کی هے، وه ان کے حق میں معاشره کے ظاهری حالات میسر نه هونے اور لوگوں میں آمادگی کے فقدان کی وجه سے تھا ـ

ورنه، اولیائے الهٰی کے مطابق، حکومت کی صرف حکومت کے عنوان سے کوئی قدر و منزلت نهیں تھی، کیونکه وه ظاهری دنیا کو اهمیت نهیں دیتے تھے، بلکه حکومت، اس لحاظ سے ان کے لئے اهم تھی که بهت سے دینی اور آسمانی شریعت کے احکام کا نفاذ ایک صالح اور طاقت ور حکومت پر منحصر هے ـ اگر حکومت کے زمامدار خود آگاه اور قانون کے پابند هوں، تو معاشره میں عدل و انصاف قائم هوگا اور وه معاشره ترقی کرے گا، اگر چه هر زمانه میں بعض عیّار، فاسق، ناجائز منافع خور اور یا فرض ناشناس ساده لوح افراد مشکلات اور رکاوٹیں پیدا کریں گے، لیکن معاشره کی کلی حرکت مثبت هوگی ـ دوسری طرف سے جس معاشره کی باگ ڈور ناصالح افراد کے هاتھـ میں هو، تو اس معاشره میں هر قسم کا فساد اور امتیازی سلوک کا هونا ممکن هے اور جو لوگ اس قسم کے رهبروں کے فرماں بردار هوں، وه کبھی سعادت کی نعمت سے بهره مند نهیں هوں گے ـ

یه وهی امام حسین علیه السلام کی رسالت تھی که فرمایا: ” میں نے بیهوه، خود غرضی اور فساد و ظلم کے لئے قیام نهیں کیا هے، بلکه صرف اپنے نانا کی امت میں اصلاح کے لئے قیام کیا هے اور میں امربالمعروف و نهی عن المنکر کرنا چاهتاهوں اور اپنے جدا مجد اور باپ کی سیرت پر عمل کرنا چاهتاهوں[1] ـ”

دوسرے الفاظ میں امام حسین علیه السلام کے قیام کی بنیادی وجه امر بالمعروف و نهی عن المنکر کو زنده کرنا اور ظالم حاکم سے مقابله کرنا تھا تا که مسلمانوں میں رائج اس غلط تفکر کو ختم کیا جائے، جس کے مطابق وه عقیده رکھتے تھے که اسلامی حاکم و خلیفه جو بھی هو اور جس قسم کا ظلم انجام دے، وه خدا کا خلیفه هے اور واجب الاطاعت هے ـ امام حسین علیه السلام کا قیام اس لحاظ سے کامیاب هوا اور اس کا نتیجه نکلا، کیونکه امام حسین علیه السلام اپنے لافانی قیام سے ایک طولانی مدت کے لئے، ایک منحرف افکار والے خلیفه کو ختم کرنے اور عام لوگوں کو یه سمجھانے میں کامیاب هوئے که خلیفه قانون ساز یه یا حکومت میں کسی قسم کا حق نهیں رکھتا هے بلکه قانون ساز یه کتاب خدا اور سیرت پیغمبر (ص) پر منحصر هے ـ اگر امام حسین علیه السلام کی تحریک نه هوتی تو اسلامی احکام میں سے بهت سے احکام تبدیل اور منحرف هو کر هم تک پهنچتے اور همارے دین کی حالت بھی وهی هوتی جس سے آج مسیحیت دوچار هوچکی هے ـ

اس لحاظ سے امام حسین علیه السلام نے دین اسلام کے احکام کے ساتھـ کھیلنے والے جھوٹے اور باطل حکام کے مقابلے میں قیام کرکے ان کے ناپاک عزائم کی راه میں رکاوٹ ڈالی اور اس طرح ان کا مقدس قیام کامیاب هوا اور حقیقت کے متلاشیوں کے لئے اسلام کا چهره واضح هوگیا ـ



[1]  بحار الانوار، ج 4، ص 329.

تبصرے
Loading...