“مکتب تشیع کا نجات دہندہ  “

امام جعفر صادق(ع)

باوجودیکہ حضرت علی ابن ابی طالب نے اپنی زندگی کے دوران علم کو پھیلانے کی غرض سے کافی کوششیں کیں لیکن لوگ علم کے حصول کی طرف زیادہ راغب نہیں ہوئے جس کی ایک وجہ خشک طرز تعلیم بھی تھی اس ضمن میں دیکھیں گے کہ مسلمان حصول علم کی طرف اس وقت تک راغب نہیں ہوئے جب تک امام صادق نے طرز تعلیم نہ بدلا ۔

امام محمد باقر مدینہ کی اسی مسجد میں درس دیتے تھے جسے محمد اور ان کے صحابہ نے ہجرت کے بعد مدینہ میں بنایا تھا اور خلفائے اسلامی کے دور میں اس میں توسیع کی گئی جو کچھ امام محمد باقر کے ہاں پڑھایا جاتا تھا وہ تاریخ کے کچھ حصے علم نحو اور علم رجال یعنی بائیو گرافی کے کچھ حصے اور خصوصا ادب یعنی شعر (جس میں نثر شامل نہ ہوتی تھی ) پر مشتمل ہوتا تھا عربوں کے ادب میں امام جعفر صادق کے زمانے تک نثر کا وجود نہیں تھا ۔ ما سوائے اس کے کہ علی ابن ابی طالب نے اپنی زندگی میں جو کچھ لکھا ۔

جو طلباء امام محمد باقر کے درس میں حاضر ہوتے تھے ان کے پاس کتابیں نہیں ہوتی تھیں اور امام محمد باقر بھی بغیر کتاب کے پڑھاتے تھے ۔

اس مدرسے کے جو طلباء ذہین ہوتے تھے جو کچھ امام باقرء کہتے یاد کر لیتے اور جو ذہین نہیں ہوتے تھے وہ استاد کے درس کو مختصرا تختی پر لکھ لیتے اور پھر گھر جا کر بڑی محنت سے کاغذ پر منتقل کر لیتے وہ تختی اس لئے استعمال کرتے تھے کہ کاغذ ان دنوں بہت مہنگا ہوتا تھا اور وہ اس قدر کاغذ استعمال نہیں کر سکتے تھے جبکہ تختی پر لکھا ہوا مٹ سکتا تھا اس طرح تختی مکرر استعمال میں لائی جاتی تھی ۔

شاید آج کتاب کے بغیر تعلیم ہمیں عجیب لگے لیکن پہلے زمانے میں مشرق و مغرب میں استاد کتاب کے بغیر تعلیم دیتے تھے اور ان کے شاگرد استاد کے درس کو یاد کر لیتے اور اگر اپنے حافظے پر اعتماد نہ ہوتا تو گھر جا کر لکھ لیتے تھے ۔

آج بھی ایسے استاد موجود ہیں جو کتاب کے بغیر پڑھاتے ہیں جو علوم محمد باقر مسجد مدینہ میں پڑھاتے تھے وسیع نہیں ہوتے تھے صرف ادب وسیع ہوتا تھا ۔ تاریخ کی تعلیم بھی اتنی ہی تھی جتنی قرآن اور تورات میں مذکور ہے اور چونکہ ابھی یونانی کتابوں کا سر یانی سے عربی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا اس لئے یورپ کی تاریخ بھی نہیں پڑھائی جاتی تھی ۔

جعفر صادق ایک ذ ہین طالب علم تھے اس لئے آسانی سے والد گرامی کے درس کو یاد کر لیتے تھے ۔

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ محمد باقر اس لئے باقر کہلائے کہ انہوں نے علم کی کھیتی کو چیرا ۔ کیونکہ باقر کے مجازی معنی چیرنے والے اور کھولنے والے کے ہیں ۔

جہاں تک ہمارا خیال ہے یہ لقب یا صفت باقر کو اس وقت ملی جب آپ نے دیگر علوم کے ساتھ ساتھ علم جغرافیہ اور دیگر یورپی علوم کا اضافہ کیا اس وقت جعفر صادق کی عمر انداز پندرہ یا بیس سال تھی ۔

بعض کا خیال ہے کہ علم جغرافیہ سریانی کتابوں سے عرب میں آیا اور جب عرب مصر گئے تو بطلیموس کے جغرافیہ سے واقف ہوئے اور جغرافیہ کی تعلیم کا آغاز جعفر صادق کے در س سے ہوا ۔

بطلیموس نے جغرافیہ کے علاوہ ہیت کے بارے میں بھی بحث کی ہے چونکہ جعفر صادق ستارہ شناسی (علم نجوم ) میں بھی ماہر تھے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ علم نجوم کو اپنے باپ سے بطلیموس کی کتاب سے پڑھا ہو گا ۔

لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ عرب بطلیموس کے جغرافیہ و ہیئت کے جاننے سے پہلے بھی ستاروں کو پہچانتے تھے اور ان کیلئے انہوں نے مخصوص نام بھی گھڑے ہوئے تھے اس بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں کہ یہ نام کس موقع پر گھڑے گئے تھے ؟ اور ان کا گھڑنے والا کون تھا ؟لیکن اس میں کوئی تردد نہیں ہے کہ جب کوئی عرب بدو مصر گیا ہو گا ۔ تو قبطیوں سے ملا ہو گا ۔ اور ان کی مدد سے اس نے بطلیموس کی کتاب تک رسائی حاصل کی ہو گی اور وہاں سے اس نے ستاروں کی شناخت کرنے کے بعد ان کے نام بھی رکھے ہوں گے ۔ لہذا بطلیموس کی کتاب نے صرف علم نجوم (جو امام جعرفر صادق اپنے والد سے پڑھتے تھے ) کو سیکھنے میں مدد کی ہو گی نہ یہ کہ انہیں علم نجوم سکھایا ہو گا محمد باقر نے جغرافیہ اور تمام مصری علوم کا مدرسہ کے دوسرے علوم پر اضافہ کیا ۔ اور اس بارے میں ہمارے پاس کوئی تاریخی سند نہیں کہ انہوں نے تمام مغربی علوم کو دوسری علوم کے ساتھ پڑھایا لیکن ہم دو قرینوں کی بناء پر یہ بات کہتے ہیں ۔

پہلا یہ کہ امام محمد باقر نے ضرور علم جغرافیہ اور ہیئت کی تدریس کا مدرسے میں آغاز کیا ہو گا ورنہ ہر گز شیعہ انہیں باقر کا لقب نہ دیتے اور زیادہ احتمال یہ ہے کہ انہوں نے دوسرے مغربی علوم کو بھی مدرسہ میں داخل کیا ہو گا جبھی تو وہ باقر کہلائے ۔

دوسرا قرینہ یہ ہے کہ جس وقت جعفر صادق نے تدریس شرو ع کی تو جغرافیہ اور ہیت فلسفہ اور فکز بھی پڑھاتے تھے جبکہ یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ جس وقت جعفر صادق نے پڑھانا شروع کیا تو اس وقت تک مغربی (یونانی ) فلسفہ و فکز ابھی تک سریانی سے عربی میں ترجمہ نہیں ہوئے تھے اور مترجمین نے صرف ترجمہ کرنے کا آغاز ہی کیا تھا اور بعض فلسفی اصطلاحات کو بھی سمجھ نہیں پائے تھے اس بناء پر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جعفر صادق نے مغربی علوم کو اپنے پدر بزرگوار سے سیکھا اور جب ان علوم میں ملکہ حاصل کیا تو ان میں اضافہ بھی کیا اور جب تک امام جعفر صادق اپنے پدر گرامی سے ان علوم کو جن کا ابھی سریانی سے عربی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا ‘ نہ سیکھتے تو نہیں پڑھا سکتے تھے ۔

شیعہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق کا علم لدنی تھا ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہرایک کا باطنی شعور اس کے ظاہری شعور کے برعکس تمام انسانی ا ور دنیوی علوم کا خزانہ ہے اور آج کے علوم بھی اس نظریہ کو مثبت قرار دیتے ہیں کیونکہ آہستہ آہستہ بیالوجی کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے بدن کے خلیوں کا ہر مجموعہ تمام ان معلومات کو جو اسے تخلیق کے آغاز سے آج تک جاننا چاہیے وہ جانتا ہے شیعوں کے عقیدہ کے مطابق جب ایک انسان پیغمبر یا امام بنا کر بھیجا جاتا ہے تو اس کے ظاہری اور باطنی شعور کے درمیان کے تمام پردے اٹھ جاتے ہیں اور امام یا پیغمبر باطنی شعور کی معلومات کی بناء پر تمام انسانی اور غیر انسانی معلومات سے استفادہ کرتا ہے ۔

شیعہ ‘ محمد بن عبداللہ (ص) کے رسول مبعوث ہونے کی بھی اسی طرح وضاحت کرتے ہیں کہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اور ان کے پاس علم نہ تھا اور غار حرا میں مبعوث ہونے کی رات کو ‘ جب جبرائیل ان پر نازل ہوئے تو کہا ” پڑھو ” پیغمبر نے جواب دیا میں نہیں پڑھ سکتا ۔

جبرائیل نے دوبارہ زور دے کر کہا پڑھو اور فورا وہ پردے جو ان کے ظاہری اور باطنی شعور کے درمیان حائل تھے اٹھ گئے اور فقط ایک لمحے میں نہ یہ کہ محمد بن عبداللہ خواندہ ہو گئے بلکہ تمام انسانی علوم سے واقف ہو گئے اور شیعہ باطنی شعور کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر کوئی ایک عام باطنی اور ایک بیکران باطنی شعور کا مالک ہے اور عام افراد سوتے میں عام باطنی شعور سے وابستہ ہوتے ہیں اور جو کچھ وہ خواب میں دیکھتے ہیں وہ انکے اور ان کے عام باطنی شعور کے رابطہ کی نسبت ہوتا ہے اور کبھی عام افراد کا جاگنے کی حالت میں اپنے عام باطنی شعور سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے اور جو کچھ وہ دیکھتے ہیں وہ عام باطنی شعور کی وجہ سے دیکھتے ہیں لیکن صرف امام کا بیکراں باطنی شعور جس میں تمام انسانی اور عالمی علوم پوشیدہ ہیں سے رابطہ قائم ہوتا ہے اور بعثت کی رات کو صرف ایک لمحے میں اپنے بیکراں باطنی شعور سے مربوط ہو گئے تھے اور اس عقیدہ کی بنیاد پر علوم جعفر صادق کو علم لدنی مانا جاتا ہے ۔

یعنی وہ علم جو ان کے باطنی شعور بیکراں کے خزانے میں موجود تھا شیعوں کا یہ مذہبی عقیدہ اپنی جگہ قابل احترام ہے لیکن ایک غیر جانبدار مورخ اس عقیدہ پر ایمان نہیں لاتا وہ تاریخی سند مانگتا ہے یا کہا جا سکتا ہے کہ وہ مادی سند تلاش کرتا ہے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ کس طرح جعفر صادق جو درس دینے تک عرب سے باہر نہیں گئے تھے (اگرچہ نصف عمر کے بعد کئی مرتبہ باہر دور دراز کے سفر پر گئے ) کس طرح انہوں نے فلسفہ اور مغربی فزکس پڑھائی جبکہ اس وقت تک کسی بھی مشہور عرب استاد نے ان علوم کو نہیں پڑھایا تھا پس ہم انداز یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح علم ہیئت و جغرافیہ قبطیوں کے ذریعہ عربوں تک پہنچا اور محمد باقر کے حلقئہ درس میں پڑھایا گیا اسی طرح فلسفہ اورمغربی فزکس بھی محمد باقر کے حلقہ درس میں شامل ہوئی ا ور بعد میں انہوں نے اپنی ذاتی تحقیق کی بنا پر اس میں خاطر خواہ اضافہ کیا ۔ ۸۶ ھ میں امام جعفر کی عمر صرف تین سال تھی جب عبدالملک بن مروان اموی خلیفہ نے دنیا کو وداع کہا اور اس کا بیٹا ولید بن عبدالملک خلیفہ بنا اس نئے خلیفہ نے اپنے پہلے حکم میں ہشام بن اسماعیل حاکم مدینہ کو معزول کیا اور اس کی جگہ عمر بن عبدالعزیز کو حاکم مدینہ مقرر کیا جو اس وقت چوبیس سالہ خوبصورت نوجوان تھے ۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اموی خلفاء جن کی کرسی خلافت و مشق میں تھی پہلے شامی بادشاہوں کی تقلید کرتے تھے اور انہی کی طرح شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے تھے اور مصر کا حاکم جو اموی خلیفہ کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا ۔ دارالحکومت میں ایک دربار سجاتا اور شان و شوکت سے زندگی گزارتا تھا ۔

ہشام بن اسماعیل (سابق حاکم مدینہ ) اموی خلیفہ کی مانند دمشق میں زندگی گزارتا تھا مگر جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ میں آئے تو نہایت انکساری سے مسجد امام محمد باقر کا دیدار کرنے گیاا ور کہا مجھے معلوم تھا کہ آپ درس میں مشغول ہیں اور بہتر یہی ہوتا کہ جب آپ درس سے فراغت پاتے تو میں حاضر خدمت ہوتا مگر شوق زیارت کے باعث صبر نہ کر سکا ۔ بندہ جب تک اس شہر میں مقیم ہے آپ کی خدمت کیلئے حاضر ہے ۔

یہاں اس نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ علی ابن ابی طالب کی اولاد اموی خلفاء کے زمانے میں مدینے سے باہر کہیں بھی نہیں رہ سکتی تھی اور اگر یہ لوگ کسی اور جگہ زندگی بسر کرنا چاہتے تو نہ صرف یہ کہ اموی حاکم کی سختی کا نشانہ بنتے بلکہ ان کی زندگی بھی خطرے میں ہوتی تھی ۔


متعلقہ تحریریں:

چھٹے امام

شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام

حضرت امام صادق (ع) کی شہادت کی مناسبت پر حضرت آیة اللہ العظمی صانعی مدظلہ العالی کے بیانات

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام

امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور انقلابی دور تھا

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام

امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے پابند ہیں

امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعض نصائح وارشادات

امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور علمی ترقی اور پیشرفت کا دورتھا

تبصرے
Loading...